الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک شخص صرف حافظ ہے اور دوسرا شخص عالم باعمل ہے پس اگر کوئی مقررہ امام مسجد موجود نہ ہو یا اس کا قائم مقام نہ ہو تو ایسی صورت میں عالم دین کو امامت کا مستحق قرار دیا جائے گا یہی افضل اور بہتر ہے جیسا کہ ہدایہ، شامی، البحرالرائق اور فقہ کی بہت سی کتابوں میں اس کی تصریح موجود ہے۔(۲)
(۲) الأولی بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا في المضمرات وہو الظاہر ہکذا في البحرالرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
الأحق بالإمامۃ تقدیماً بل نصبا۔ مجمع الأنہر۔ الأعلم بأحکام الصلاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص102