الجواب وباللّٰہ التوفیق: بیوی کا خوبصورت ہونا یا نہ ہوناامامت سے متعلق نہیں ہے اور اس قسم کی باتیں کرنا مذہب میں تحریف کے مترادف ہے جو باعث گناہ ہے، دونوں شخصوں میں جو خوش الحان بھی ہو اس کو ترجیح دی جائے۔
اور بعض فقہاء نے جو یہ لکھا ہے: ’’ثم الأحسن زوجۃ‘‘ اس کی علت یہ ہے کہ زوجہ کے خوبصورت ہونے کی وجہ سے دوسری عورتوں کی طرف التفات نہیں کرے گا۔ صالح اور نیک ہوگا علت اور سبب کا بھی لحاظ کیا جاتا ہے۔ اس کا عمومی مطلب یہ نہیں کہ جس کی بیوی خوبصورت ہو، تو وہ وجہ تقدیم امامت بن جائے ایسا نہیں ہے۔
اس لیے دیکھا جائے کہ خوش الحان ہو اور زیادہ صالح وعابد وزاہد ہو اور اس میں بھی دونوں برابر ہوں تو قرعہ اندازی کر لی جائے، جیسا کہ شامی نے وضاحت کی ہے۔(۱)
(۱) (قولہ ثم الأحسن زوجۃ) لأنہ غالباً یکون أحب لہا وأعف لعدم تعلقہ بغیرہا وہذا مما یعلم بین الأصحاب أو الأرحام أو الجیران إذ لیس المراد أن یذکر کل أو صاف زوجتہ حتی یعلم من ہو أحسن زوجۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۵)
ولا شک أن ہذہ المعاني إذا اجتمعت في إنسان کان ہو أولی کما بینا أن بناء أمرالإمامۃ علی الفضیلۃ والکمال والمستجمع فیہ ہذہ الخصال من أکمل الناس: أما العلم والورع وقراء ۃ القرآن فظاہر۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلوٰۃ: بیان أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص115