الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا کرنا بدعت وگمراہی ہے اور کافرانہ رسم ورواج ہے پس مذکورہ شخص بھی (تاوقتیکہ توبہ نہ کرلے) امام بنانے کہ قابل نہیں ہے اس کی نماز مکروہ تحریمی ہے۔(۱)
(۱) قولہ: (یکون محرزاً ثواب الجماعۃ) أي مع الکراہۃ إن وجد غیر ہم وإلا فلا کراہۃ، کما في البحر بحثاً وفي السراج ہل الأفضل أن یصلي خلف ہٰؤلاء أم الإنفراد؟ قیل أما في الفاسق فالصلاۃ خلفہ أولیٰ، وہذا إنما یظہر علی أن إمامتہ مکروہۃ تنزیہا أما علی القول بکراہۃ التحریم فلا وأما الآخرون فیمکن أن یقال الإنفراد أولیٰ لجہلہم بشروط الصلاۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق الإمامۃ، ص:۳۰۳)
ویکرہ إمامتہ عبد … ومبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹)
وحاصلہ إن کان ہوی لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس، في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرسا۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، التفسیر المظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص122