الجواب وباللّٰہ التوفیق: بے تحقیقی بات کا تو اعتبار نہیں ہے؛ لیکن عرس وغیرہ میں شرکت اور قبروں کا طواف وغیرہ افعالِ بدعت ہیں خصوصاً قبر کا طواف کرنا کفر ہے کہ یہ عبادت بیت اللہ کے ساتھ مخصوص ہے، نیز نمازیوں کی ناراضی بجا اور باموقع ہے اس حالت میں ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے۔(۱)
’’ولا یمسح القبر ولا یقبلہ فإن ذلک من عادۃ النصاری‘‘(۲)
’’أما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ ۔۔۔۔۔ بل مشیٰ في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۳)
(۱) ویکرہ إمامۃ عبد … ومبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم لابمعاندۃ بل بنوع شبہۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸،۲۹۹)
وعن ابن عمرو رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول : ثلثۃ لاتقبل اللّٰہ منہم صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون، ورجل أتی الصلاۃ دباراً والدّبار أن یأتیہا بعد أن تفوتہ ورجل اعتبد محررہ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الرجل یؤم القوم وہم لہ کارہون‘‘: ج ۲، ص:۸۸، رقم: ۵۹۳)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب السادس عشر في زیارۃ القبور وقرأۃ القرآن في المقابر‘‘: ج ۵، ص: ۳۵۰۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب البدعۃ خمسۃ اقسام‘‘: ج۲، ص:۲۹۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص125