الجواب وباللّٰہ التوفیق: حروف کی ادائیگی صحیح طریقہ پر ہونی چاہئے حتی الامکان امام صاحب کو اس کی کوشش کرنی چاہئے(۱) لیکن انگوٹھے چومنا اور دعاء میں یاغوث کہنا غلط عقیدہ ہے جو بدعت ہے ایسے شخص کو امام نہ بنانا چاہئے؛ بلکہ دیندار متبع سنت شخص کو نماز جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی کا امام بنانا چاہئے؛ البتہ حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا اور ایسے ہی شروع تکبیر میں کھڑا ہونا دونوں جائز ہیں اس بارے میں ایک فریق کو دوسرے پر نکیر نہ کرنی چاہئے مگر مذکورہ بالا غلط عقیدہ رکھنے والے بدعتی کی امامت مکروہ ہے۔ بیت المقدس تمام انبیاء کا قبلہ ہے اس کو آرام گاہ کہنا ہے بے ادبی ہے، اس لیے کہ وہ عبادت گاہ ہے آرام گاہ نہیں ہے۔(۲)
(۱) قولہ ثم الأحسن تلاوۃ و تجویدا أفاد بذلک أن معنی قولہم أقرأ أي أجود لاأکثرہم حفظاً، وإن جعلہ في البحر متبادراً، ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالماً بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
(۲) ویکرہ إمامۃ مبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف، وقال الشامي، بأنہا ما أحدث علی خلاف الحق المتلقي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال…بنوع شبہۃ واستحسان وجعل دیناً قویماً وصراطاً مستقیماً۔ (أیضًا)
وقال في مجمع الروایات، إذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزاً ثواب الجماعۃ لکن لاینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص129