86 views
جھوٹ بولنے والے کی امامت:
(۱۱۰)سوال: کیا فرماتے ہیں علماء ومفتیان شرع متین اس مسئلہ ذیل کے بارے میں: ایک امام صاحب جو کہ معمولی پڑھے لکھے ہیں وہ ایک گاؤں کی مسجد میں نماز پڑھاتے ہیں اس وقت چند افراد ان سے ناراض ہیں اور وہ ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ہیں ان کی ناراضگی کی وجہ یہ ہے کہ امام صاحب کا رویہ صحیح نہیں ہے مثلاً: نماز کی پابندی نہیں کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، ایک دوسرے کی برائی کرتے ہیں، اگر کچھ حضرات نے ان کو سمجھایا تو امام صاحب کا کہنا ہے کہ میں زبردستی نماز پڑھاؤں گا اور مجھے کوئی ہٹا نہیں سکتا ہے۔
امام صاحب کے مسجد میں نماز پڑھانے پر گاؤں میں فساد اور پارٹی بازی کا خطرہ ہے وہ امام صاحب رمضان میں ایک ایسے مکتب کا چندہ کرنے کے لیے باہر جاتے ہیں جس مکتب میں باہر کے بچے نہیں پڑھتے ہیں فیصد کے اعتبار سے چندہ کرتے ہیں، حالاں کہ مقتدی ناراض ہیں اور ایک ہی مسجد میں ایک وقت کچھ آدمی کی جماعت بھی ہوتی ہے اور کچھ آدمی الگ ہوکر پڑھتے ہیں ان دونوں طرح کے لوگوں کی نماز کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے قرآن وحدیث کی روشنی سے واضح فرما دیں۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد علی، ضلع میرٹھ
asked Dec 16, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کسی امر دینی کی وجہ سے مقتدی امام سے ناراض ہوں اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے پر اعتراض کرتے ہوں تو اس امام کی امامت مکروہ ہے، اس کو خود امامت سے علیحدگی اختیار کر لینی چاہئے یہ کہنا کہ زبردستی پڑھاؤں گا بالکل غلط ہے۔ اس کو اس کا حق نہیں ہے جھگڑے اور فتنہ سے بچنا ضروری ہے، متولی کے لیے ضروری ہے کہ معاملہ کو سلجھائیں۔ اور امام مذکور کو امامت سے سبکدوش کریں۔(۱)

(۱) (ولو أم قوماً وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ (لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ) لہ ذلک تحریماً؛ لحدیث أبي داؤد: لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوماً وہم لہ کارہون، (وإن ہو أحق لا)، والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
(وإمام قوم) أي: الإمامۃ الکبری، أو إمامۃ الصلاۃ (وہم لہ): وفي نسخۃ: لہا، أي الإمامۃ (کارہون) أي: لمعنی مذموم في الشرع، وإن کرہوا لخلاف ذلک، فالعیب علیہم ولا کراہۃ، قال ابن الملک: أي کارہون لبدعتہ أو فسقہ أو جہلہ، أما إذا کان بینہ وبینہم کراہۃ وعداوۃ بسبب أمر دنیوي، فلا یکون لہ ہذا الحکم، في شرح السنۃ قیل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنۃ فاللوم علی من کرہہ، وقیل: ہو إمام الصلاۃ ولیس من أہلہا، فیتغلب فإن کان مستحقاً لہا فاللوم علی من کرہہ، قال أحمد: إذا کرہہ واحد أو اثنان أو ثلاثۃ، فلہ أن یصلي بہم حتی یکرہہ أکثر الجماعۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، الفصل الثاني‘‘: ج۳، ص: ۱۷۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص137

answered Dec 16, 2023 by Darul Ifta
...