الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کسی امر دینی کی وجہ سے مقتدی امام سے ناراض ہوں اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے پر اعتراض کرتے ہوں تو اس امام کی امامت مکروہ ہے، اس کو خود امامت سے علیحدگی اختیار کر لینی چاہئے یہ کہنا کہ زبردستی پڑھاؤں گا بالکل غلط ہے۔ اس کو اس کا حق نہیں ہے جھگڑے اور فتنہ سے بچنا ضروری ہے، متولی کے لیے ضروری ہے کہ معاملہ کو سلجھائیں۔ اور امام مذکور کو امامت سے سبکدوش کریں۔(۱)
(۱) (ولو أم قوماً وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ (لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ) لہ ذلک تحریماً؛ لحدیث أبي داؤد: لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوماً وہم لہ کارہون، (وإن ہو أحق لا)، والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
(وإمام قوم) أي: الإمامۃ الکبری، أو إمامۃ الصلاۃ (وہم لہ): وفي نسخۃ: لہا، أي الإمامۃ (کارہون) أي: لمعنی مذموم في الشرع، وإن کرہوا لخلاف ذلک، فالعیب علیہم ولا کراہۃ، قال ابن الملک: أي کارہون لبدعتہ أو فسقہ أو جہلہ، أما إذا کان بینہ وبینہم کراہۃ وعداوۃ بسبب أمر دنیوي، فلا یکون لہ ہذا الحکم، في شرح السنۃ قیل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنۃ فاللوم علی من کرہہ، وقیل: ہو إمام الصلاۃ ولیس من أہلہا، فیتغلب فإن کان مستحقاً لہا فاللوم علی من کرہہ، قال أحمد: إذا کرہہ واحد أو اثنان أو ثلاثۃ، فلہ أن یصلي بہم حتی یکرہہ أکثر الجماعۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، الفصل الثاني‘‘: ج۳، ص: ۱۷۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص137