34 views
گالم گلوچ کرنے والے کی امامت:
(۱۳۳)سوال: حضرت مفتی صاحب! ہماری مسجد کے امام صاحب عام گفتگو میں بھی گالم گلوچ کرتے رہتے ہیں، ایسے ہی بعض دفعہ مالِ حرام کو بھی اپنے لیے جائز سمجھتے ہوئے اس کو استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے، ایسے شخص کی امامت میں ادا کی گئی نماز درست ہوگی یانہیں؟ اس امام کی جگہ دوسرے امام کو رکھنا ہم لوگوں کے لیے ضروری ہے یا نہیں؟ اس کی اقتداء سے تنہا نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دے کر ممنون ومشکور فرمائیں۔
فقط: والسلام
المستفتی: ایم زاہد حسین، کرنال
asked Dec 17, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ امامت کا منصب بہت ہی مقدس ہے جو تقوی وطہارت، پرہیز گاری اور اعلیٰ اخلاقی رویئے کا تقاضا کرتا ہے اس لیے مذکورہ باتیں جو سوال میں ذکر کی گئی ہیں اگر صحیح ہیں تو امام صاحب کو اپنے کردار پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے؛ کیوں کہ وہ عامۃ الناس کے لیے نمونہ اور قائد کی حیثیت رکھتے ہیں؛ البتہ امام صاحب مذکورہ فعل کی وجہ سے اگرچہ گناہگار ہیں؛ لیکن ان کے پیچھے پڑھی ہوئی نمازیں درست ہیں انہیں اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے گالی دینے سے متعلق ایک روایت نقل کی ہے:
’’سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر‘‘ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کے ساتھ قتال کرنا کفر ہے۔(۱)
ابوداؤد شریف میں لکھا ہے:
فرض نماز کی ادائیگی لازم ہے ہر مسلمان کے پیچھے خواہ وہ نیک ہو یا بد، اگرچہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو۔
’’الصلاۃ المکتوبۃ واجبۃ خلف کل مسلم برا کان أو فاجرا وإن عمل الکبائر‘‘(۲)
البتہ اگر امام صاحب گالیاں دینے اور حرام مال کا استعمال کرنے سے نہ رکیں تووہ فاسق ہے ایسے شخص کو آئندہ امام مقرر نہیں کرنا چاہیے اس کے پیچھے نماز پڑھنے کو فقہاء نے مکروہِ تحریمی لکھا ہے۔ ’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق‘‘(۳)
ایسے کی اقتداء سے بہتر تنہا نماز پڑھنے کے سلسلے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ: اگر نمازی عام آدمی ہے، یعنی جس کے اختیار میں ایسے امام کو رکھنا یا ہٹانا نہ ہو اورقریب کی کسی مسجد میں کوئی متقی و صالح امام بھی میسر نہ ہو تو مذکورہ امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنا تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہوگا، البتہ اگر قریب میں اہلِ حق کی کسی مسجد کے امام متقی صالح ہوں تو وہاں جاکر نماز ادا کرے، اور اگر نمازی انتظامیہ میں سے یا با اثر شخصیت ہے تو اسے چاہیے کہ اولًا امام کی فہمائش یعنی آگاہ اور متنبہ کرے، اگر امام اصلاحِ اَحوال کرلیتا ہے تو اس کی اقتدا میں نماز ادا کرنا بلاکراہت درست ہوگا اور اگر اس کے بعد بھی باز نہ آئے تو انتظامیہ امام تبدیل کرے، امام تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
’’(والأحق بالإمامۃ) تقدیمًا بل نصبًا۔ مجمع الأنہر۔ (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃً وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ‘‘(۱)
’’(قولہ: بشرط اجتنابہ إلخ) کذا في الدرایۃ عن المجتبی۔ وعبارۃ الکافي وغیرہ: الأعلم بالسنۃ أولی، إلا أن یطعن علیہ في دینہ؛ لأن الناس لایرغبون في الاقتداء بہ‘‘(۲)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب خوف المؤمن من أن یحبط عملہ وہو لا یشعر‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۴۸۔
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إمامۃ البر والفاجر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۲، رقم: ۵۹۴۔
(۳) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔
(۱) أیضًا:  ص: ۲۹۴۔
(۲) أیضًا:۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص159

answered Dec 17, 2023 by Darul Ifta
...