الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر امام صاحب نے باوجود علم کے عدت میں نکاح پڑھایا ہے تو نکاح پڑھانے والا اور اس نکاح میں شریک گاؤں کے لوگ سب کے سب گناہگار ہوں گے ان سب پر توبہ اور استغفار لازم ہے۔
’’قال اللّٰہ تعالیٰ: {إِلَّاالَّذِیْنَ تَابُوْا وَ أَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا}(۱)
’’یدل علی أن التوبۃ من الکتمان إنما یکون بإظہار البیان، وأنہ لا یکتفی فی صحۃ التوبۃ بالندم علی الکتمان فیما سلف دون البیان فیما استقبل‘‘(۲)
’’عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’من رأی منکم منکراً فلغیرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان‘‘(۳)
نیز اگر مذکورہ امام سے بہتر اور لائق کوئی دوسرا شخص امامت کے لیے موجود ہو تو ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے؛ البتہ توبہ اور استغفار کے بعد اس امام کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمی ومبتدع لا یکفر بہا، وإن کفر بہا فلا یصح الاقتداء بہ أصلاً، وولد الزنا، ہذا إن وجد غیرہم، وإلا فلا کراہۃ‘‘(۱)
(۱) سورۃ البقرۃ: ۱۶۰۔
(۲) الجصاص، أحکام القرآن: ’’سورۃ البقرۃ: ۱۶۰‘‘ ج ۱، ص: ۱۴۳۔
(۳) أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب: النہي عن المنکر من الإیمان‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۴۹۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص170