79 views
سنن مؤکدہ کے تارک کی امامت کا حکم:
(۱۵۵)سوال: ایک امام کی عادت ہے کہ وہ مستقل طور پر سنن اور نوافل کی پابندی نہیں کرتے یہاں تک کہ موکد ترین سنت جو فجر کی سنت کہلاتی ہیں ان کو بھی ترک کردیتے ہیں تو اس شکل میں ان کو امام بنانا جائز ہے یا نہیں اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ جواب مرحمت فرمائیں۔
فقط: والسلام
المستفتی: مظفرالاسلام، دھام پور
asked Dec 18, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب و باللہ التوفیق: سنن مؤکدہ کا تارک اور ترک پر اصرار کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہونے کی وجہ سے فاسق ہوگیا اور اس کی امامت مکروہ تحریمی ہوگی، کسی نیک، دیندار سنت کے پابند شخص کو امام مقرر کیا جائے تاکہ نماز جیسا اہم فریضہ مسنون طریقہ پر ادا کیا جاسکے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق … أما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً … بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۱)
’’الذي یظہر من کلام أہل المذہب أن الإثم منوط بترک الواجب أو السنۃ المؤکدۃ علی الصحیح لتصریحہم بأن من ترک سنن الصلوات الخمس قیل لا یأثم والصحیح أنہ یأثم۔ ذکرہ في فتح القدیر‘‘(۲)
’’رجل ترک سنن الصلوات الخمس إن لم یر السنن حقا فقد کفر لأنہ ترک استخفافاً وإن رأی حقا منہم من قال لا یأثم والصحیح أنہ یأثم لأنہ جاء الوعید بالترک‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، ۲۹۹، زکریا دیوبند۔
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب فيالسنۃ وتعریفہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰، زکریا، دیوبند۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا ،دیوبند، وہکذا في الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج۱، ص: ۱۷۱، زکریا دیوبند۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص182

 

answered Dec 18, 2023 by Darul Ifta
...