20 views
متعہ کے قائل وفاعل کی امامت کا حکم:
(۱۵۶)سوال: ایک شخص جو متعہ کے جواز کا قائل بھی ہے اور عملاً متعہ کرتا بھی ہے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتا ہے کیا ایسے شخص کا امامت کرنا درست ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد مرتضیٰ، دہلی
asked Dec 18, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب و باللّٰہ التوفیق: متعہ معتبر علماء وفقہاء کرام کے نزدیک حرام ہے(۴) جس کی حرمت صریح حدیث سے ثابت ہے(۵) اس لیے متعہ کے جواز کا قائل و فاعل فاسق ہے جس کی امامت و تقلید مکروہ تحریمی ہے، ایسے شخص کے بہکائے میں قطعاً نہ آئیں۔(۱)

(۴) ونکاح المتعۃ باطل وہو أن یقول لإمرأۃ أتمتع بک کذا مدۃ بکذا من المال۔ (المرغیناني،  ہدایۃ، ’’فصل في بیان المحرمات‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۰)
(۵) عن علي بن أبي طالب: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن متعۃ النساء یوم خیبر وعن لحوم الحمر الإنسیۃ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ،  في سننہ، ’’باب النہي عن نکاح المتعۃ‘‘: رقم: ۱۹۶۱)
(۱) قال الحصکفي ویکرہ إمامۃ عبد ومبتدع أي صاحب بدعۃ وہی اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لایکفر بہا وإن کفر بہا فلایصح الاقتداء بہ أصلا، قال ابن عابدین: قولہ وہي اعتقاد الخ، عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ ولایخفی أن الاعتقاد یشمل ماکان معہ عمل أولا فإن من تدین بعمل لابد أن یعتقدہ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸۰- ۲۸۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص183

answered Dec 18, 2023 by Darul Ifta
...