الجواب و باللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال امام صاحب کے لیے مذکورہ بالا امور شرعاً و اخلاقاً ناجائز اور منصب امامت کے لیے کسی بھی طرح مناسب نہیں ان کو ان تمام حرکتوں سے فوری توبہ کرلینی چاہئے اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے بصورت دیگر اراکین کمیٹی کو چاہئے کہ ایسے امام کو تبدیل کردیں اور کسی نیک اور صالح امام کو مقرر کرلیں تاہم فتنہ وفساد سے ہر حال میں بچا جائے جب تک اس امام کو کمیٹی والے تبدیل نہ کریں اس کے پیچھے نمازیں ادا ہوجاتی ہیں۔
’’أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم‘‘(۱)
’’وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال: فضل الجماعۃ أفاد أن الصلوٰۃ خلفہما أولی من الإنفراد؛ لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۲، ص:۳۰۱۔
(۲) أیضًا:۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص187