77 views
دھوکہ دھڑی اورغلط طریقہ سے پیسہ کمانے والے کی امامت:
(۱۸۰)سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:
ایک شخص نے زنا میں ملوث ہونے کی خبر خود ہی اپنے دوستوں کو دیا، اور فی الحال جھوٹ  دھوکہ دھڑی غلط طریقے سے پیسہ وغیرہ کمانے میں لگا ہوا ہے، مذکورہ شخص امامت کے قابل ہے یا نہیں؟ نیز اگر حقیقت میں اس نے غلط کام کیا ہو اور اس نے توبہ بھی کرلی ہو تو کیا اب بھی اس شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے؟ نیز اگر اس نے زنا نہیں کیا ازراہ مذاق اپنے دوستوں کے نزدیک زنا کا تذکرہ کیا اب دوستوں کو حقیقت مان کر اور اس پر صرف الزام لگانا کیسا ہے؟ الزام لگانے والے پر شرعی کیا حکم ہے؟ ’’بینوا وتوجروا‘‘
فقط: والسلام
المستفتی: محمد عباس مفتاحی، رامپور
asked Dec 19, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ کتب فقہ میں فاسق کی امامت کو مکروہ تحریمی لکھا ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص گناہ کبیرہ میں ملوث ہواور توبہ نہ کرے تو فسق کی وجہ سے اس کی امامت مکروہ ہوگی؛ لیکن شرعی تحقیق کے بغیر کسی کو مرتکب کبیرہ نہیں قرار دیا جاسکتا اور اگر کسی شخص پر صرف زنا کی تہمت ہے مگر ثابت نہیں ہوا ہے تو اس پر تہمت لگانے والے سخت گنہگار حق العبد میں گرفتار اور مستحقِ عذاب ہوگا ان لوگوں پر جنہوں نے الزام لگایا ہے توبہ واستغفار اور اس شخص سے معافی طلب کرنا لازم ہے اگر اسلامی قانون نافذ ہوتا تو زنا کی تہمت لگانے والے اگر چار گواہوں سے زنا ثابت نہ کر پاتے تو اسی ۸۰ کوڑے مارے جاتے۔
 سوال میں مذکورہ احوال اگر واقعۃً صداقت پر مشتمل ہیں، اور مذکورہ شخص نے خود ہی قبول
کیا ہے تو ایسا شخص شرعاً امامت کے لائق نہیں ہے، اگر جماعت میں اس سے بہتر شخص امامت کے لائق موجود ہوں تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے، مسجد کی انتطامیہ پر لازم ہے کہ کسی نیک صالح متبعِ سنت عالمِ دین کو امامت پر مقرر کریں۔
نیز مذکور شخص کا زنا کرنا یا اس کا کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں رہنا اگر ثابت ہو جائے اور اس کے بعد اس نے توبہ کرلی ہو تو ان دونوں صورتوں میں اس سے بیزار رہنے والے غلطی پر ہیں توبہ استغفار کے بعد مذکورہ شخص کی امامت بلا کراہت درست ہے اور ان سب کی نماز اس کے پیچھے ہوجاے گی بشرطیکہ کوئی اور چیز مانع امامت نہ ہو۔
’’وکرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین، فتجب إہانتہ شرعاً، فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ‘‘(۱)
’’بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۲)
’’قولہ: فاسق: من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الربا ونحو ذلک‘‘(۳)
’’قال تعالیٰ: {وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً}(۴)
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن سعد بن عبادۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: یا رسول اللّٰہ! إن وجدت مع إمرأتي رجلاً أمہِّلہ حتی أتی بأربعۃ شہداء؟ قال نعم‘‘(۵)
’’ویثبت شہادۃ أربعۃ رجال في مجلس واحد … بلفظ الزنا لا الوطء والجماع … وعدّلوا سراً وعلناً … ویثبت أیضاً بإقرارہ أربعاً في مجالسہ: أي المقرالأربعۃ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الحدود‘‘: ج ۴، ص: ۴۲۱۔
(۲) قال ولو وکلہ بشراء شيء بعینہ فلیس لہ أن یشتریہ لنفسہ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب البیوع، فصل في الشراء‘‘: ج ۳، ص: ۱۸۴)
 أن الغاصب أو المودع إذا تصرف فی المغصوب أو الودیعۃ وربح لا یطیب لہ الربح۔ (المرغیانی، الہدایۃ، ’’کتاب الغصب، فصل‘‘: ج ۳، ص: ۳۷۵)
 عن عبد اللّہ بن عمر وأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال أربع من کن فیہ کان منافقا خالصا ومن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعہا إذا ائتمن خان۔ (ملا علي قاري، عمدۃ القاري، ’’کتاب الإیمان، باب الکبائر، باب علامات المنافق‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱)
 وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع فالحاصل أنہ یکرہ إلخ) قال الرملي ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (ابن نجیم، البحرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص207

 

answered Dec 19, 2023 by Darul Ifta
...