الجواب وباللّٰہ التوفیق: تجوید کے خلاف قرآن کریم پڑھنے یا انتظامی مصلحت کی بنا پر اہل محلہ کے مشورہ پر متولی نے جب امامت سے سبکدوش کر دیا، تو مذکورہ شخص کا زبردستی امامت کرنا، آپسی انتشار پھیلانا شرعاً درست نہیں ہے؛ اس لیے متولی کو صحیح قرآن پڑھنے والے شخص کو امام مقرر کرنا چاہئے اور مذکورہ شخص کی قرأت اگر مفسد نماز نہیں ہے، تو اس کے پیچھے اداء کی گئیں نمازیں درست ہیں۔(۱)
(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدً للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقاً ثم الأحسن وجہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
الأولیٰ بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا في المضمرات وہو الظاہر ہکذا في البحرالرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
قال في الخانیہ والخلاصۃ الأصل فیما إذا ذکر حرفا مکان حرف وغیرالمعنی إن أمکن الفصل بینہما بلا مشقۃ تفسد وإلا یمکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد المعجمتین والصاد مع السین المہملتین والطاء مع التاء قال أکثرہم لاتفسد وفي خزانۃ الأکمل قال القاضي أبوعاصم: إن تعمد ذلک تفسد وإن جری علی لسانہ أولا یعرف التمییز لاتفسد وہو المختار۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۳۹۶)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص214