الجواب وباللّٰہ التوفیق:خواتین کے لیے مخصوص ایام میں مستحب یہ ہے کہ نماز کے اوقات میں وضو کرکے مصلی پر بیٹھ کر تھوڑی دیر تسبیح وغیرہ پڑھ لیا کریں؛ تاکہ عبادت کا اہتمام برقرار رہے اور پاکی کے بعد نماز پڑھنے میں سستی نہ آئے۔ حیض کے ایام میں نماز اور قرآن پڑھنا منع ہے لیکن تسبیح پڑھنا منع نہیں ہے، ایسی عورت نماز تو نہیں پڑھے گی؛ لیکن تشبہ بالمصلین ہوجائے گا۔فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے کہ حائضہ عورت کے لیے مستحب ہے کہ نماز کے وقت وضو کرکے جتنی دیر نماز پڑھنے میں لگتی ہے، اتنی دیر مصلیٰ بچھا کر بیٹھ کر ذکر ودعا کرتی رہے، تاکہ عام اوقات میں جو وقت عبادت میں لگتا تھا وہ ضائع بھی نہ ہو اور عبادت کی عادت بھی باقی رہے۔
’’وقال: ویجوز للجنب والحائض الدعوات وجواب الأذان ونحو ذلک کذا في السراجیۃ‘‘(۱)
’’و یستحب للمرأۃ الحائض إذا دخل علیہا وقت الصلاۃ أن تتوضأ و تجلس عند مسجد بیتہا، و في السراجیۃ: مقدار ما یمکن أداء الصلاۃ لو کانت طاہرۃ و تسبح و تہلل کي لا تزول عنہا عادۃ العبادۃ‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: …الباب السادس، في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الرابع: في أحکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ومنہا: حرمۃ قرأۃ القرآن‘‘: ج ۱، ص: ۹۳۔
(۲) عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: بیان حکم الحیض والاستحاضۃ والنفاس، نوع آخر في الأحکام التي بالحیض‘‘: ج ۱، ص: ۴۷۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص401