102 views
اسقاط حمل پر آنے والے خون اور اس حمل کا حکم
(۲۶)سوال:زینب چند ماہ کی حاملہ تھی، پھر اس کا حمل ضائع ہو گیا، اب جو خون جاری ہوا، وہ نفاس میں داخل ہے یا نہیں، نماز وروزہ کا کیا حکم ہے نیز جو حمل ضائع ہوا اگر اس میں بچہ کے اعضا نمودار ہو گئے تھے، تو اس کے غسل، کفن ودفن کا کیا حکم ہے؟ براہ کرم اس کا جواب جلد از جلد تحریر فرما دیجئے۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد نشاط، کلکتہ
asked Dec 21, 2023 in طہارت / وضو و غسل by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسقاط حمل کے نتیجہ میں اگر اجزائے انسانی میں سے کوئی جز مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ ظاہر ہو گئے، تو وہ شرعاً بچہ ہے اور اس کے بعد آنے والا خون نفاس ہے، مذکورہ صورت میں عورت سے نماز ساقط ہو جائے گی اور روزہ دوسرے دنوں میں قضا کرے گی اور اس جزو انسانی کو غسل دیا جائے گا۔
اور اگر کوئی چیز ظاہر نہیں ہوئی، تو وہ بچہ نہیں ہے نہ اس کے لیے غسل ہے اور نہ کفن ودفن؛ البتہ جزو انسانی ہونے کی وجہ سے دفن کرنا چاہئے اور اس صورت میں آنے والا خون نفاس نہیں ہے، اب دیکھنا چاہئے کہ اس سے قبل حیض آئے ہوئے کتنا زمانہ ہوا اور یہ خون کتنے دن آیا، اگر حیض آئے ہوئے پندرہ دن یا اس سے زیادہ ہو گئے اور یہ خون کم از کم تین دن آئے، تو حیض ہے ورنہ استحاضہ ہے جس میں نماز روزہ سب درست ہے۔
’’وسقط ظہر بعض خلقہ کید أو رجل أو إصبع أو ظفر أو شعر ولا یستبین خلقہ إلا بعد مائۃ وعشرین یوماً ولد حکماً فتصیر المرأۃ بہ نفساء … فإن لم یظہر لہ شيء فلیس بشيء والمرئي حیض إن دام ثلاثاً وتقدمہ طہر تام وإلا استحاضۃ‘‘(۱)
’’وإلا أي وإن لم یستہل غسل وسمیٰ عند الثاني وہو الأصح فیفتی بہ علی خلاف ظاہر الروایۃ إکراماً لبني آدم کما في ملتقی البحار وفي النہر عن الظہیریۃ: وإذا استبان بعض خلقہ غسل وحشر ہو المختار وأدرج في خرقۃ ودفن ولم یصل علیہ‘‘(۲)
’’ولا خلاف في غسلہ ومالم یتم وفیہ خلاف والمختار أنہ یغسل ویلف في خرقۃ ولا یصلی علیہ‘‘ (۳)
’’وأما السقط الذي لا یتم أعضاؤہ ففي غسلہ اختلاف المشایخ والمختار أنہ یغسل ویلف في خرقۃ، ولم یصل علیہ باتفاق الروایات ومذہب علمائنا رحمہم اللّٰہ في السقط الذي استبان بعض خلقہ أنہ یحشر وہو قول الشعبي وابن سیرین‘‘ (۴)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض، مطلب في أحوال السقط وأحکامہ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۰، ۵۰۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۳۱۔
(۳) أیضاً۔
(۴) عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ : ج ۳، ص: ۱۱۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص402

 

answered Dec 21, 2023 by Darul Ifta
...