الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا شخص وسوسہ کا شکار ہے، جب تک وضو ٹوٹنے کا یقین نہ ہو، یا غالب گمان نہ ہو آپ کا وضو باقی ہے، شک وشبہ کی وجہ سے وضو پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔(۱)
(۱)الیقین لا یزول بالشک۔ (ابن نجیم،الأشباہ والنظائر، ج۱، ص:۱۸۳، دارالکتاب دیوبند)؛ و في الأصل من شک في بعض وضوئہ وھو أول ما شک غسل الموضع الذي شک فیہ، فإن وقع ذلک کثیراً لم یلتفت إلیہ، ھذا إذا کان الشک في خلال الوضوء، فإن کان بعد الفراغ من الوضوء لم یلتفت إلی ذلک، ومن شک في الحدث فھو علی وضوئہ ولو کان محدثاً فشک في الطھارۃ فھو علی وضوئہ ولا یعمل بالتحری کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول : في الوضوء،الفصل الخامس في نواقض الوضوء، و مما یتصل بذلک مسائل الشک‘‘ ج۱، ص:۶۴)؛ و شک في بعض وضوئہ أعاد ما شک فیہ لو في خلالہ ولم یکن الشک عادۃ لہ و إلا لا، قولہ و إلا لا أي و إن لم یکن في خلالہ بل کان بعد الفراغ منہ، و إن کان أول ما عرض لہ الشک أو کان الشک عادۃ لہ، و إن کان في خلالہ فلا یعید شیئًا قطعاً للوسوسۃ عنہ کما في التاترخانیۃ وغیرھا۔ ( ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في ندب مراعاۃ الخلاف، الخ‘‘ ج۱، ص :۲۸۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص410