الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بوقت ضرورت (جب کہ دوسرا قادر علی القیام آدمی) موجود نہ ہو، مذکورہ شخص امام بن کر نماز پڑھا دے، تو نماز ادا ہوجائے گی اور دوسرے اچھے آدمی کے ہوتے ہوئے امامت کرائی، تو کراہت سے خالی نہیں ہوگی۔
’’وقائم بقاعد یرکع ویسجد وقائم بأحدب وإن بلغ حدبہ الرکوع علی المعتمد و کذا بأعرج وغیرہ أولیٰ الخ‘‘(۱)
اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ قادر علی القیام کو امام مقرر کیا جائے تاکہ نماز جیسا اہم فریضہ صحیح طریقہ پر بلا کراہت ادا کیا جا سکے۔(۲)
(۱) الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ مطلب في رفع المبلغ صوتہ زیادۃ علی الحاجۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۶، ۳۳۸۔
(۲) (وصح اقتداء قائم بقاعد) یرکع ویسجد؛ لأنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم …صلی آخر صلاتہ قاعدا وہم قیام وأبو بکر یبلغہم تکبیرہ … وغیرہ أولٰی (وموم بمثلہ) إلا أن یومی الإمام مضطجعا والمؤتم قاعدا أو قائما ہو المختار۔ (أیضًا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص223