الجواب و باللّٰہ التوفیق: مذکورہ شخص امامت کے تقاضے پورا کرتا ہے تو اس کی امامت درست ہے صرف ہاتھ کی کچھ انگلیوں کا نہ ہونا، پیر کا کٹا ہوا ہوناامامت کی صحت کے لیے مضر نہیں، امامت بلا کراہت صحیح ہے۔(۱)
(۱) ولو کان قادرا علی بعض القیام دون تمامہ یؤمر بأن یقوم قدر ما یقدر … ولو قدر علی القیام متکئا، الصحیح أنہ یصلي قائما متکئا ولا یجزیہ غیر ذلک وکذلک لو قدر علی أن یعتمد علی عصا أو علی خادم لہ فإنہ یقوم ویتکئ، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶، زکریا دیوبند)
قید بتعذر القیام أي جمیعہ لأنہ لو قدر علیہ متکئا أو متعمداً علی عصاً أو حائط لا یجزئہ إلا کذلک خصوصا علی قولہما فإنہما یجعلان قدرۃ الغیر قدرۃ لہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸، زکریا دیوبند)
(برکوع وسجود وإن قدر علی بعض القیام) ولو متکئا علی عصا أو حائط (قام) لزوماً۔ (الحصکفي، رد المحتارمع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۷، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص230