الجواب وباللہ التوفیق: شرعی معذور شخص عذر کی حالت میں غیر معذور لوگوں کی کسی بھی نماز میں امامت نہیں کر سکتا ہے؛ کیوں کہ امامت کے شرائط میں سے ہے کہ امام کی حالت مقتدیوں کی حالت سے اقوی ہو، جب کہ معذور کی امامت کے مسئلہ میں مقتدیوں کی حالت اقوی ہوجاتی ہے۔ اس لیے غیرمعذور لوگوں کی نماز معذور امام کے پیچھے جائز نہیں ہے۔ اگر نماز پڑھی تو اعادہ ضروری ہے، اور امام پر لازم ہے کہ ان کو خبر کردے اور اعلان کردے کہ میں معذور ہوں، جن لوگوں نے میرے پیچھے نماز پڑھی وہ اپنی نمازیں اتنے دنوں کی لوٹالیں؛ البتہ اگر شرعاًمعذورامام نے اس حالت میں نماز پڑھائی کہ وضو کرنے کے بعد سے نماز پڑھاکر فارغ ہونے تک عذر پیش نہیں آیا تھا تو اس کی امامت درست ہوگئی اور غیر معذور مقتدیوں کی نماز بھی درست ہوگئی، نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں، اس لیے آپ کو اعلان کرنے کی بھی ضرورت نہیں؛ لیکن اگر نماز کے دوران پیشاب کا قطرہ نکل گیا اور عذر پیش آگیا تو امام کی نماز تو شرعی معذور ہونے کی وجہ سے ہوجائے گی؛ البتہ غیر معذور لوگوں کی نماز نہیں ہوگی۔ اس لیے اگر آپ نے نماز سے پہلے پیشاب واستنجا سے فارغ ہوکر وضو کرکے نماز پڑھادی اور اس دوران کوئی پیشاب کا عذر پیش نہیں آیاتھا تو سب کی نماز درست ہوگئی۔ اعادہ کی ضرورت نہیں؛ البتہ اگر عذر پیش آگیاتھا تو مقتدیوں کی نماز نہیں ہوئی،جہاں جہاں آپ نے نماز پڑھائی حتی المقدور اس جگہ اعلان کرنے کی کوشش کریں اور توبہ واستغفار بھی کریں۔
’’قال الحصکفي: وصاحب عذر من بہ سلس بول إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ بأن لا یجد في جمیع وقتہا زمنًا یتوضأ ویصلي فیہ خالیا عن الحدث قال ابن عابدین نقلاً عن الرحمتی: ثم ہل یشترط أن لا یمکنا مع سننہما أو الاقتصار علی فرضہما؟ یراجع اھـ أقول الظاہر الثاني‘‘(۱)
’’وقال الحصکفی: ولا طاہر بمعذور‘‘(۲)
’’(وصح اقتداء متوضئ) لا ماء معہ (بمتیمم) … (وقائم بقاعد) یرکع ویسجد؛ لأنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی آخر صلاتہ قاعدا وہم قیام وأبو بکر یبلغہم تکبیرہ (قولہ وقائم بقاعد) أي قائم راکع ساجد أو موم، وہذا عندہما خلافا لمحمد۔ وقید القاعد بکونہ یرکع ویسجد لأنہ لو کان مومیا لم یجز اتفاقاً‘‘(۳)
’’وکذا لایصح الاقتداء بمجنون مطبق أو متقطع في غیر حالۃ إفاقتہ وسکران) أو معتوہ ذکرہ الحلبي (ولا طاہر بمعذور) ہذا (إن قارن الوضوء
الحدث أو طرأ علیہ) بعدہ (وصح لو توضأ علی الانقطاع وصلی کذلک) کاقتداء بمفتصد أمن خروج الدم؛ وکاقتداء امرأۃ بمثلہا، وصبی بمثلہ، ومعذور بمثلہ وذي عذرین بذي عذر، لا عکسہ کذي انفلات ریح بذي سلس لأن مع الإمام حدثا ونجاسۃ۔ (قولہ: ومعذور بمثلہ إلخ) أي إن اتحد عذرہما، وإن اختلف لم یجز کما في الزیلعي والفتح وغیرہما۔ وفي السراج ما نصہ: ویصلي من بہ سلس البول خلف مثلہ۔ وأما إذا صلی خلف من بہ السلس وانفلات ریح لا یجوز لأن الإمام صاحب عذرین والمؤتم صاحب عذر واحد۔ اھـ۔ ومثلہ في الجوہرۃ۔
وظاہر التعلیل المذکور أن المراد من اتحاد العذر اتحاد الأثر لا اتحاد العین، وإلا لکان یکفیہ في التمثیل أن یقول: وأما إذا صلی خلف من بہ انفلات ریح، ولکان علیہ أن یقول في التعلیل لاختلاف عذرہما، ولہذا قال في البحر: وظاہرہ أن سلس البول والجرح من قبیل المتحد، وکذا سلس البول واستطلاق البطن‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أحکام المعذور‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۴۔
(۲) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار : ج۲، ص:۳۲۳
(۳) أیضًا: ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ الخ‘‘:ج ۲، ص: ۳۳۶۔
(۱) أیضًا: ’’مطلب الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ص: ۳۲۲،۳۲۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص242