الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر امام صاحب دونوں مسلکوں سے واقفیت رکھتے ہیں اور وہ دونوں مسلکوں کے اعتبار سے اس طرح رعایت کریں کہ نماز میں کسی بھی مسلک کے لحاظ سے کراہت نہ آتی ہو، تو اس طرح امامت درست ہے۔(۱)
(۱) وقال البدر العیني یجوز الاقتداء بالمخالف … ما لم یتحقق من إمامہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، شیخ الہند دیوبند)
والاقتداء بشافعي المذہب إنما یصح إذا کان الإمام یتحامي مواضع الخلاف۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۲)
وأما الاقتداء بالمخالف في الفروع کالشافعي فیجوز ما لم یعلم منہ ما یفسد الصلاۃ علی اعتقاد المقتدي علیہ الإجماع … ذہب عامۃ مشایخنا إلی الجواز إذا کان یحتاط في موضع الخلاف وإلا فلا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: مطلب في الاقتداء یشافعي ونحو ہل یکرہ أم لا‘‘: ج۲، ص: ۳۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص247