الجواب وباللّٰہ التوفیق: احادیث سے رفع یدین بھی ثابت ہے اور عدم رفع بھی اور آمین بالجہر بھی اور بالسر بھی، لیکن شراح حدیث اور فقہاء نے وضاحت کی ہے کہ ان مسائل میں اختلاف جواز اور عدم جواز کانہیں ہے؛ بلکہ افضلیت اور اولیت کا ہے؛ اس لیے اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑتا، بہر صورت نماز ہو جاتی ہے صورت مسئول عنہا میں ایک کا دوسرے کو برا کہنا جائز نہیں ہے۔ جو مجتہد اپنے اجتہاد سے صحیح مسئلہ پر پہونچا وہ مصیب ہے اور دوسرا مخطی ہے اور ائمہ اربعہ متفق ہیں کہ مخطی بھی مستحق اجر ہے، تو مقلدین کو کب یہ حق پہنچتا ہے کہ دوسرے کو برا کہیں ایک کی نماز دوسرے کے پیچھے بلاشبہ ہو جاتی ہے، البتہ طہارت کے جو مسائل مختلف فیہ ہیں ان میں مقتدی کے مسلک کی رعایت امام کو کرنی ضروری ہوتی ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے، تو اس صورت میں مقتدی کی نماز فاسد ہو جاتی ہے اور اگر مقتدی کو امام کی کیفیت کا علم نہ ہو تو بھی اس کے لیے اعادہ کا حکم نہیں ہوگا۔(۱)
(۱) وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف وکل بر وفاجر ما لم یکن مبتدعاً بدعۃ یکفر بہا وما لم یتحقق من إمامہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ أہـ۔ وإذا لم یجد غیر المخالف فلا کراہۃ في الاقتداء بہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
والذي یمیل إلیہ القلب عدم کراہۃ الاقتداء بالمخالف ما لم یکن غیر مراع في الفرائض لأن کثیراً من الصحابۃ والتابعین کانوا أئمۃ مجتہدین وہم یصلون خلف إمام واحد مع تباین مذاہبم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي الخ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص248