139 views
حرمین میں وتر کی نماز:
(۲۲۵)سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:
ایک حنفی شخص کو حرمین شریفین میں وتر کی نماز جوحنبلی طریقہ پر ادا ہوتی ہے جماعت کے ساتھ کیسے ادا کرنی چاہیے یا انفرادی ادا کرے؟ (۲) رمضان میں حرمین میں جو قیام اللیل کی نماز باجماعت ادا کی جاتی کیا حنفی اس میں شامل ہو سکتا ہے؟ (۳) حرمین کے علاوہ میں رمضان کے میں قیام اللیل جماعت کے ساتھ اور بغیر جماعت اس کا کیا حکم ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد ارشد حسین، دہلی
asked Dec 23, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حرمیں شریفین میں حنفی حضرات کے لیے حنبلی طریقہ کے مطابق جماعت کے ساتھ وتر کی نماز درست ہے، یہ مسئلہ اجتہادی ہے اور بعض ائمہ احناف نے اس کی اجازت دی ہے؛ اس لیے حرمین میں اس پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔
حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے حضرت شیخ الہندؒ کی یہی رائے نقل کی ہے کہ ان کے پیچھے اقتداء کرنا جائز ہے۔
’’و لا عبرۃ بحال المقتدي و إلیہ ذہب الجصاص و ھو الذي اختارہ لتوارث السلف اقتداء أحدہم بالآخر بلا نکیر مع کونہ مختلفین في الفــروع   وکان مولانا شیخ الہند محمود الحسن أیضاً: یذہب إلی مذہب الجصاص‘‘(۱)
(۲) نفل یا تہجد کی نماز رمضان میں یا غیر رمضان میں جماعت کے ساتھ مکروہ ہے؛ اس لیے کہ احناف کے یہاں نفل کی جماعت نہیں ہے ہاں اگر بغیر تداعی کے جماعت ہو اس طور پر کہ دو تین لوگ شریک ہو جائیں تو درست ہے اور تداعی کے ساتھ نفل کی جماعت مکروہ ہے اور چار یا چار سے زائد افرا د کا ہونا یہ تداعی ہے۔
’’ولا یصلي الوتر و لا التطوع بجماعۃ خارج رمضان، أي یکر ہ ذلک علی سبیل التداعي، بأن یقتدی أربعۃ بواحد و في الشامیۃ: و أما اقتداء واحد بواحد أو إثنین بواحد فلا یکرہ و ثلاثۃ بواحد فیہ خلاف‘‘(۲)
’’وأما وتر غیرہ وتطوعہ فمکروہۃ فیہما علی سبیل التداعي قال شمس الأئمۃ الحلواني إن اقتدی بہ ثلاثۃ لا یکون تداعیا فلا یکرہ إتفاقا وإن اقتدی بہ أربعۃ فالأصح الکراہۃ‘‘(۳)
البتہ رمضان میں حرمین میں قیام اللیل کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے چوں کہ حرمین کا مسئلہ عام جگہ سے مختلف ہے، وہاں پر نماز کی زیادہ فضیلت ہے؛ اس لیے علماء نے حرمین میں قیام اللیل کی جماعت میں شریک ہونے کی اجازت دی ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں وتر کو بھی فقہاء نے جائز قرار دیا ہے۔(۱)

(۱) الکشمیري، فیض الباري، شرح البخاري، ’’باب مسح الید بالتراب لیکون انقی‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸، دارالکتب العلمیۃ بیروت۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في کراہیۃ الاقتداء في النفل علی سبیل التداعي‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰)
(۳) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۲۸۶، شیخ الہند دیوبند۔
(۱) والجماعۃ في النفل في غیر التراویح مکروہۃ فالاحتیاط ترکہا في الوتر خارج رمضان، وعن شمس الأئمۃ أن ہذا فیما کان علی سبیل التداعي، أما لو اقتدی واحد بواحد أو إثنان بواحد لا یکرہ وإذا اقتدی ثلاثہ بواحد اختلف فیہ وأن اقتداء أربعۃ بواحد کرہ اتفاقاً۔ (حسن بن عمار، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر وأحکامہ‘‘: ص: ۳۸۶، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص250



 

answered Dec 23, 2023 by Darul Ifta
...