الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف کے نزیک وتر کی نماز تین رکعت ایک سلام سے پڑھنا واجب ہے، اگر درمیان میں دورکعت پر سلام پھیر دیا تو منافی نماز یعنی سلام کے پائے جانے کی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہوجائے گی؛ اس لیے حنفی شخص کا حنبلی مسلک کے مطابق وتر کی نماز پڑھانا درست نہیں ہے۔
جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے اس کا جواب یہی ہے کہ اگر حنفی شخص کا شوافع کی اقتدا میں وتر کی نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔ تاہم بعض ائمہ احناف نے اس کی گنجائش دی ہے؛ اس لیے اگر ضرورتاً اس طرح نماز پڑھنے کی ضرورت پڑے تو اس کی گنجائش ہے؛ جیسا کہ بسااوقات حرمین شریفین میں اس کی نوبت آجاتی ہے تو ایسے مواقع میں اس طور پر امام کی اقتداء کرلینے کی گنجائش ہے۔
’’(وصح الاقتداء فیہ) ففي غیرہ أولٰی إن لم یتحقق منہ ما یفسدہا في اعتقادہ في الأصح کما بسطہ في البحر (بشافعي) مثلا (لم یفصلہ بسلام) لا إن فصلہ (علی الأصح) فیہما للاتحاد وإن اختلف الاعتقاد‘‘(۱)
’’(قولہ لما روت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا) روی الحاکم وقال علی شرطہما عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوتر بثلاث لا یسلم إلا في آخرہن، قیل للحسن إن ابن عمر کان یسلم في الرکعتین من الوتر فقال کان عمر أفقہ منہ وکان ینہض في الثانیۃ بالتکبیر ‘‘(۲)
’’ولا عبرۃ بحال المقتدي، وإلیہ ذہب الجصاص، وہو الذي اختارہ لتوارث السلف، واقتداء أحدہم بالآخر بلا نکیر مع کونہم مختلفین في الفروع، وإنما کانوا یمشون علی تحقیقاتہم إذا صلوا في بیوتہم، أما إذا بلغوا في المسجد فکانوا یقتدون بلا تقدم وتأخر، ولن ینقل عن إمامنا أنہ سأل عن حال الإمام في المسجد الحرام مع أنہ حج مرارا‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب الاقتداء بالشافعي‘‘: ج۲، ص: ۴۴۴۔
(۲) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۶۔
(۳) الکشمیري، فیض الباري، شرح البخاري،’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص254