60 views
شیعہ حضرات کا سنیوں کی مسجد میں نماز پڑھنا:
(۲۳۲)
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ اہل سنت والجماعت کی مسجد میں شیعہ شخص نماز ادا کرنے آتا ہے اکثر و بیشتر جماعت کے ساتھ سنی امام کے پیچھے نماز ادا کرتا ہے اور اگر جماعت ہوگئی ہو تو پھر تنہانماز ادا کرتا ہے اور نماز کے بعد وظیفہ، تلاوت قرآن بھی کرتا ہے مسجد کے قریب ہی میں سکونت بھی کرتا ہے مع اہل و عیال ایک مکان میں رہتا ہے کچھ سنی حضرات کو اس کا مسجد میں آنا عبادت کے واسطے ناگوار ہے اس لیے کہ نمازتو سنیوں کی طرح پڑھتا ہے لیکن فرق اتنا کرتا ہے کہ رفع یدین بھی کرتا ہے اور سجدے کے لیے گول گپی مٹی وغیرہ کا جس پر کعبہ شریف کا نقشہ بنا ہوا ہے اسی پر سجدہ کرتا ہے اب کچھ سنی حضرات کا خیال ہے کہ اس طریقہ پر کہیںہمارے بچہ بھی نماز نہ پڑھنے لگیں، لہٰذا اس شخص کو روک دیا جائے، مسجد کے امام پر زور دیا گیا ہے کہ آپ اس شخص کومنع کردیں کہ سنیوں کی مسجد میں نماز نہ ادا کریں اور مسجد میں نہ آئیں، بلکہ آپ اپنی مسجد یا گھر ہی پر نماز ادا کریں، امام مسجد نے زور دینے کی بنا پر اس شخص کو منع کردیا جیسا کہ لوگ چاہتے تھے، یہ بتلائیں کہ سنی کی مسجد میں یہ شخص اگر کسی امام کے پیچھے نماز پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے یا نہیں، اور سنیوںکی نماز ادا ہوجائے گی کہ نہیں؟ اس شخص پر سنیوں نے جو پابندی عائد کی ہے وہ کہاں تک صحیح ہے؟ منع کرنے والوں پر کسی قسم کا گناہ توعائد نہیں ہوگا؟ {ومن أظلم ممن منع مساجد اللّٰہ أن یذکر فیہا اسمہ}۔ اور {لہم في الدنیا خزي ولم في الآخرۃ عذاب عظیم} سے کیا مراد ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: ایس مسعود علی، لکھنؤ
asked Dec 23, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مذکورہ شیعہ مسجد میں جماعت سے نماز پڑھتا ہے تو اس کی وجہ سے دوسرے نمازیوں کی نماز میںکوئی فرق نہیں آئے گا اگرچہ وہ رفع یدین بھی کرتا ہو؛ کیوں کہ رفع یدین احناف کے نزدیک غیر اولیٰ ہے، اگر وہ مسجد میں قرآن پاک پڑھتا ہے یا وظیفہ پڑھتا ہے، تواس کو منع کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور اگر وہ تنہا نماز پڑھتا ہے جب بھی اس کو مسجد میں آنے سے روکنا صحیح نہیںہے اپنے بچوں کی خود تربیت کی جائے۔(۱)

(۱) واختلف الأئمۃ في دخول الکفار المسجد فجوزہ الإمام ابوحنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ مطلقاً للآیۃ (ومن اظلم ممن منع الخ) فإنہا تفید دخولہم بخشیۃ وخشوع ولأن وفد ثقیف قدموا علیہ علیہ الصلاۃ والسلام فأنزلہم المسجد ولقولہ علیہ السلام: من دخل دار أبي سفیان فہو آمن ومن دخل الکعبۃ فہو آمن والنھي محمول علی التنزیۃ أو الدخول للحرم بقصد الحج۔ ومنعہ مالک رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ مطلقاً۔ لقولہ تعالیٰ إنما المشکرون نجس۔ (التوبۃ آیۃ: ۲۸)
والمساجد یجب تطہیرہا عن النجاسات ولذا یمنع الجنب عن الدخول وجوزہ لحاجۃ۔ وفرق الإمام الشافعي رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ بین المسجد الحرام وغیرہ وقال الحدیث منسوخ بالآیۃ۔ (آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ البقرۃ: ۱۱۴، ۱۱۶‘‘: ج۱، ص: ۵۷۳، ۵۷۴، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص258

answered Dec 23, 2023 by Darul Ifta
...