الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کو جو تنخواہ دی جاتی ہے متقدمین فقہاء نے اسے ناجائز کہا ہے؛ لیکن متأخرین فقہاء نے جائز کہا ہے اس کی علت ہے دین کی بقاء وآبیاری تاہم اتنی طویل غیر حاضری کی جو کہ سوال میں درج ہے قانوناً، اخلاقاً اورشرعاً کسی صورت میں بھی ان ایام کی تنخواہ لینا ودینا جائز نہیں؛(۱) اس لیے اگر ان مہینوں کی تنخواہ دے گا، تو متولی پر ضمان آ جائے گا؛ اس لیے ان ایام کی تنخواہ دینا بھی جائز نہیں ہے۔(۲)
(۱) الأجیر الخاص یستحق الأجرۃ إذا کان في مدۃ الإجارۃ لیس لہ أن یمتنع عن العمل وإذا امتنع لا یستحق الأجرۃ۔ (شرح المجلد، ’’کتاب الإجارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۹، رقم: ۲۴۵)
(۲) قال في الإسعاف: ولا یولی إلا أمین قادر بنفسہ أو بنائبہ لأن الولایۃ مقیدۃ بشرط النظر ولیس من النظر تولیۃ الخائن لأنہ یخل بالمقصود۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف: مطلب في شروط المتولي‘‘: ج۶، ص: ۵۷۸)
وأما حکمہا فوجوب الحفظ علی المودع وصیرورۃ المال أمانۃ في یدہ ووجوب أدائہ عند طلب مالکہ، کذا في الشمني۔ الودیعۃ لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترہن، وإن فعل شیئاً منہا ضمن، کذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الودیعۃ، الباب الأول في تفسیر الإبداع والودیعۃ‘‘: ج ۴، ص: ۳۴۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص263