22 views
امام یا نائب کی اجازت کے بغیر نماز پڑھانا:
(۲۳۸)سوال: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ: بعدسلام عرض ہے کہ مسجدکے امام صاحب چھٹی پرچل رہے ہیں اور دس دن کے لیے اپنے نائب امام کاانتظام کرکے گئے ہیں۔ نائب امام صرف حافظ ہیں جمعہ کی نماز کامسئلہ ہے دریں اثنامسجدمیں کوئی عالم صاحب آجائیں محلے کے لوگ عالم صاحب سے نمازجمعہ کے لیے اصرارکریں، توعالم صاحب کو نائب سے اجازت لینی ہے یا نہیں؟ اوربغیراجازت لیے اگر پڑھادی، تو کیا نماز ہو جائے گی؟
فقط: والسلام
المستفتی: طیب، گنگوہی
asked Dec 24, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: محلہ کے لوگوں نے جب عالم صاحب کو آگے بڑھادیا، تو اجازت ہوگئی، اب امام صاحب سے صراحۃً اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، نماز بہرصورت درست ہوگئی۔(۱)

(۱)  عن أوس بن ضمعج، عن أبي مسعود، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:… لایؤم الرجل في سلطانہ و لایجلس علی تکرمتہ في بیتہ إلا بإذنہ، ہذا حدیث حسن۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، أبواب الأدب عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب‘‘: ج ۵، ص: ۹۹، رقم: ۲۷۷۲، وکذا في أبواب الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ: ج ۱، ص: ۴۵۸، رقم: ۲۳۵)
(ولایؤمن الرجل الرجل في سلطانہ) أي: في مظہر سلطنتہ ومحل ولایتہ، أو فیما یملکہ، أو في محل یکون في حکمہ، ویعضد ہذا التأویل الروایۃ الأخری في أہلہ، وروایۃ أبي داؤد في بیتہ ولا سلطانہ، ولذا کان ابن عمر یصلي خلف الحجاج، وصح عن ابن عمر أن إمام المسجد مقدم علی غیر السلطان، وتحریرہ أن الجماعۃ شرعت لاجتماع المؤمنین علی الطاعۃ وتآلفہم وتوادہم، فإذا أم الرجل الرجل في سلطانہ أفضی ذلک إلی توہین أمر السلطنۃ، وخلع ربقۃ الطاعۃ، وکذلک إذا أمہ في قومہ وأہلہ أدی ذلک إلی التباغض والتقاطع، وظہور الخلاف الذي شرع لدفعہ الاجتماع، فلا یتقدم رجل علی ذي السلطنۃ، لا سیما في الأعیاد والجمعات، ولا علی إمام الحي ورب البیت إلا بالإذن۔ قالہ الطیبي۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۳، ص: ۱۷۵، رقم: ۱۱۱۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص265

 

answered Dec 24, 2023 by Darul Ifta
...