115 views
بغیر شرعی وجہ کے امام کو معزول کرنا:
(۲۳۹)سوال: ایک مسجد میں آٹھ یا دس سال سے ایک عالم دین بحیثیت امام مقرر ہیں اور مقتدیوں کا اس امام سے بحیثیت امام کوئی اختلاف نہیں، لیکن چند خود غرض انسان محض اپنی ذاتی اور سیاسی اغراض کے لیے اس امام کی امامت میں رکاوٹ کھڑی کر کے دوسرے امام کو اپنی مرضی کے مطابق مسلط کرنا چاہتے ہیں، حالاں کہ مقرر امام کو منصب امامت سے ہٹانے یا دور رکھنے کے لیے ان کے پاس کوئی دلیل شرعی نہیں ہے اور تمام مقتدی ان کے اس رویّہ سے پریشان ونالاں ہیں ایسی صورت میں مقرر کردہ امام نے اجازت بھی نہ دی تو زور زبردستی مسلط کردہ امام کی امامت جائز ہے یا مکروہ یا حرام؟ اور مقرر کردہ امام کو اس صورت میں کیا کرنا چاہئے؟ تفصیل سے جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیں۔
فقط، والسلام
المستفتی: عبد الرشید، کشمیر
asked Dec 24, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ذاتی مفاد اور کسی سیاسی غرض سے کسی مسجد کے امام کو جس سے کوئی شرعی اختلاف نہیں ہے، الگ یا معزول نہیں کیا جا سکتا یہ بہت بری بات ہے کہ معمولی سے  اختلاف یا ذاتی مفاد کو امام پر یا امامت پر اتارا جائے اس طرح کی گھناؤنی حرکتوں سے بچا جائے کہ یہ حرکت غیر اخلاقی اور غیر شرعی ہے، اگر واقعی امام صاحب میں کوئی کمی ہے، تو ان کو بصد ادب واحترام معروف وسہل انداز میں تمام احترامات کے ساتھ متوجہ کر دینا چاہئے۔ بغیر وجہ شرعی کے موجود ہ امام کو معزول اور الگ کرنا جائز نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن عمر و بن الحارث بن المصطلق قال: کان یقال أشد الناس عذابا یوم القیامۃ إثنان إمرأۃ عصت زوجہا، وإمام قوم وہم لہ کارہون، قال ہناد: قال جریر: قال منصور: فسألنا عن أمر الإمام فقیل لنا: إنما عني بہذا الأئمۃ الظلمۃ، فأما من أقام السنۃ، فإنما الإثم علیٰ من کرہہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في من أم قوماً وہم لہ کارہون‘‘: ج۱، ص: ۶۶،رقم:۳۵۹)
ولوأم قوماً وہم لہ کارہون، إن الکراہۃ لفساد فیہ، أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً (إلیٰ قولہ) وإن ہو أحق لا، والکراہۃ علیہم الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)
وفي جامع الفصولین بغض عالمًا أو فقیہًا بلا سبب ظاہر خیف علیہ الکفر۔…(جامع الفصولین، الباب الثامن والثلثون في مسائل کلمات الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص266

 

answered Dec 24, 2023 by Darul Ifta
...