الجواب وباللّٰہ التوفیق: ذاتی مفاد اور کسی سیاسی غرض سے کسی مسجد کے امام کو جس سے کوئی شرعی اختلاف نہیں ہے، الگ یا معزول نہیں کیا جا سکتا یہ بہت بری بات ہے کہ معمولی سے اختلاف یا ذاتی مفاد کو امام پر یا امامت پر اتارا جائے اس طرح کی گھناؤنی حرکتوں سے بچا جائے کہ یہ حرکت غیر اخلاقی اور غیر شرعی ہے، اگر واقعی امام صاحب میں کوئی کمی ہے، تو ان کو بصد ادب واحترام معروف وسہل انداز میں تمام احترامات کے ساتھ متوجہ کر دینا چاہئے۔ بغیر وجہ شرعی کے موجود ہ امام کو معزول اور الگ کرنا جائز نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن عمر و بن الحارث بن المصطلق قال: کان یقال أشد الناس عذابا یوم القیامۃ إثنان إمرأۃ عصت زوجہا، وإمام قوم وہم لہ کارہون، قال ہناد: قال جریر: قال منصور: فسألنا عن أمر الإمام فقیل لنا: إنما عني بہذا الأئمۃ الظلمۃ، فأما من أقام السنۃ، فإنما الإثم علیٰ من کرہہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في من أم قوماً وہم لہ کارہون‘‘: ج۱، ص: ۶۶،رقم:۳۵۹)
ولوأم قوماً وہم لہ کارہون، إن الکراہۃ لفساد فیہ، أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً (إلیٰ قولہ) وإن ہو أحق لا، والکراہۃ علیہم الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)
وفي جامع الفصولین بغض عالمًا أو فقیہًا بلا سبب ظاہر خیف علیہ الکفر۔…(جامع الفصولین، الباب الثامن والثلثون في مسائل کلمات الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص266