الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر سوال میں درج کردہ باتیں بالکل درست ہیں تو آپ چوں کہ اس مسجد کے متولی ہیں اور مسجد کا سار ا بار آپ خود اٹھاتے ہیں؛ اس لیے مسجد میں امام رکھنے کا حق آپ کو حاصل ہے جس امام کو آپ نے امامت کے لیے متعین کیا ہے اگر ان میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے امامت میں خلل واقع ہو تو محلہ والوں کا بلا کسی سبب کے اس امام کو ناپسند کرنا درست نہیں ہے۔
’’الباني أولٰی بنصب الإمام و المؤذن و ولد الباني وعشیرتہ أولٰی من غیرہم بنی مسجدا في محلۃ و نصب الإمام و المؤذن فنازعہ بعض أہل المحلۃ في العمارۃ فالباني أولٰی مطلقا و إن تنازعوا في نصب الإمام و المؤذن مع أہل المحلۃ إن کان ما اختارہ أہل المحلۃ أولٰی من الذي اختارہ الباني فما اختارہ أہل المحلۃ أولی وإن کانا سواء فمنصوب الباني أولی‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۶، ص: ۵۴۶۔
لوأم قوما وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ فیہ، کرہ لہ ذلک تحریما لحدیث أبي داؤد لایقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘:ج۲، ص:۲۹۷)۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص269