25 views
غیر متقی کی امامت:
(۲۴۵)سوال: امام صاحب عالم ہونے کا دعوی کرتے ہیں، مگر ان میں تقویٰ کوسوں دور ہے، کیا ان کے پیچھے متقی اور حاجیوں کی نماز جائز ہے اور کیا وہ لوگ اس امام کی اقتداء کر سکتے ہیں؟ ان کو امامت کے لیے مقرر کرنا کہاں تک مناسب ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد ابراہیم، گورکھپور
asked Dec 24, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: ایسے امام کے پیچھے متقی پرہیز گار لوگوں کی نماز یعنی فریضہ تو ادا ہو جائے گا، مگر اس کی امامت مکروہ تحریمی ہوگی، اس صورت میں کسی دیندار پرہیز گار مستحق امامت شخص کو امام مقرر کیا جائے تاکہ نماز جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی سنت کے مطابق ہو جائے۔(۱)

(۱) وذکر الشارح وغیرہ أن الفاسق إذا تعذر منعہ یصلي الجمعۃ خلفہ وفي غیرہا ینتقل إلی مسجد آخر، وعلل لہ في المعراج بأن في غیر الجمعۃ یجد إماما غیرہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۱)
وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع فالحاصل أنہ یکرہ الخ، قال الرملي: ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (أیضًا:)
ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمی ومبتدع أي صاحب بدعۃ، وفي النہر عن المحیط صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (ابن عابدین،  ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص273

 

answered Dec 24, 2023 by Darul Ifta
...