36 views
جس شخص کے بارے میں بدگمانی ہو اس کی امامت کا کیا حکم ہے؟
(۲۵۰)سوال: ایک امام صاحب مسجد میں تقریباً دو سال سے تھے، بچوں کو بہت اچھی طرح پڑھایا، لکھایا، سارا گاؤں ان سے خوش تھا، انہوں نے بچوں سے املاء لکھوایا۔
آج گیارہ بجے رات کو آپ کو میرے کمرے میں آنا ہے۔
پس اس پرچے کو بنیاد بنا کر اتہام لگا دیا کہ یہ تو رات کے وقت بچوں کو اپنے کمرے میں بلاتا ہے، تو ایسا شخص قابل امامت ہے یا نہیں، اور الزام لگانے والوں کا کیا حکم ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: اسلام الدین،مظفر نگر
asked Dec 24, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں کیف ما اتفق زید، عمر، بکر وغیر کے ناموں کے ساتھ اس قسم کے جملے املاء میں لکھا دئیے جاتے ہیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں، دوسروں کو اس پر بدگمانی نہیں کرنی چاہئے ورنہ تو خواہ مخواہ بدگمانی کرنے والے سخت گنہگار ہوں گے جب کہ امام کے دوسرے معاملات سے اس کی دینداری اور دینی تعلیم کا جذبہ بھی ظاہر ہے اور نماز ایسے امام کے پیچھے درست اور صحیح ہے۔(۱)

(۱) وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف وکل بروفاجر مالم یکن مبتدعاً بدعۃ یکفر بہا ومالم یتحقق من إمامتہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأحق بالامامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، شیخ الہند دیوبند)
من أبغض عالماً من غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر … ویخاف علیہ إذا شتم عالماً أو فقیہاً من غیر سبب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر، الباب التاسع في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا مایتعلق بالعلم والعلماء‘: ج۲، ص: ۲۸۲، زکریا دیوبند)
وعن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: سباب المؤمن فسوق وقتالہ کفر۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل  في مسندہ، مسند عبد اللّٰہ بن مسعود: ج ۷، ص: ۲۳، رقم: ۴۱۷۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص277

 

answered Dec 24, 2023 by Darul Ifta
...