55 views
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ غیرممیزبچہ، پاگل،باؤلہ،کومہ میں  گیا ہوا شخص، اسی طرح گونگا بہرا،نابینا شخص کے خلاف  اگر کسی نے دارالقضاء میں معاملہ درج کیا تو  کارروائی کس طرح چلائی جائے، یعنی ایسی صورت میں مدعیٰ علیہ کا بیان کس طرح لیاجائے؟ یہ سوال اس صورت میں بھی ہےجب کہ  یہی افراد مدعی ہوں تو ان کا بیان  کس طرح لیاجائے؟یہ مسئلہ اس وقت اور الجھ جاتاہے جب فریق لکھنا پڑھنا  نہ جانتاہو، اگر وہ کسی کو وکیل بناتے ہیں تو کیا ان کی توکیل درست  ہوگی؟ اگر نہیں تو پھر کیاکیاجائے؟براہ کرم جلدی  جواب عنایت فرمائیں۔فقط
محمدفیاض عالم قاسمی
26/12/23ء
ناگپاڑہ ممبئی۔
asked Dec 26, 2023 in متفرقات by Qazi Faiyaz Alami

1 Answer

Ref. No. 2736/45-4310

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نابالغ بچہ، پاگل اور مجنون اپنا وکیل نہیں بنا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا وکیل بنانا درست ہے خواہ وہ مدعی ہوں یا مدعی علیہ دونوں صورتوں میں حکم یہ ہے کہ اس کے ولی اس کی طرف سے وکالت کریں گے اور یہی لوگ اس کے نگراں اور پاسبان ہوں گے۔

صورت مذکورہ میں اگر قضا کا معاملہ پیش آ جائے تو یہی لوگ ان کی نگہداشت کا فریضہ انجام دیں گے یہی لوگ ان کی طرف سے وکالت کریں گے اوران کے معاملے کی پیروی کریں گے۔

فلا يصح توكيل مجنون وصبي لا يعقل مطلقا وصبي يعقل (رد المحتار: ج 8، ص: 242)

وليس لغير ابيه وجده ووصيها التصرف في حاله وكذا لووهب له فيمن هو في حجره‘‘ (جامع الفصولين: ج 2، ص: 9)

الولاية في ما له الصغير الأب ثم وصيه ثم وصي وصيه وبعد فلو مات الأب ولم يوص فالولاية لأبي الأب ثم وصيه ثم وصي وصيه فان ما لم يكن فللقاضي‘‘ (رد المحتار: ج 6، ص: 714)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Jan 11 by Darul Ifta
...