193 views
،،،،،،،اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎،،
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ اکرام ۔طلاق دینے کی نیّت سے نکاح کرنا کیسا ھے۔مطلب۔لڑکا بھی طلاق  دینے کی نیّت کی ھے۔ اور لڑکی کو بھی پتا ھے کہ طلاق ضرور   دیگا ۔تو کیا انکا نکاح صحیح ھے?۔براۓ مہربانی مدلّل جواب دیں۔
asked Oct 12, 2022 in متفرقات by Arif kha

1 Answer

Ref. No. 2081/44-2081

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ واللہ الموفق: نکاح کا مقصد دائمی الفت و محبت کا ایک رشتہ قائم کرنا اورشرم گاہ کی حفاظت کے ساتھ توالدو تناسل کی انسانی ضرورت کو پـورا کرنا ہےاسی لیے اسلام میں نکاح متعہ او رموقت کو حرام قرار دیا گیا ہے کہ اس میں ایک متعین وقت کے لیے شادی کی جاتی ہے ۔البتہ حضرات فقہاءاحناف نے متعہ یا موقت کے لیے عقد نکاح میں وقت کی قید کو ضروری قرار دیا ہے اس لیے اگر عقد میں وقت اور زمانے کی صراحت نہ ہو صرف دل میں ہو تو اس پر متعہ یا موقت کا اطلاق احناف کے نزدیک نہیں ہوتاہے اسی لیے اصولی طورپر نکاح کی یہ صورت کہ دو گواہوں کی موجودگی میںایجاب و قبول ہو اور زبان سے وقت اور زمانہ کو متعین نہ کیا جائے تو یہ درست ہے ۔تاہم مقصد نکاح کو دیکھتے ہوئے ایسا کرنا مکروہ ہے ۔اس لیے بلا ضرورت شدیدہ طلاق دینے کی نیت سے نکاح کرنا کراہت سے خالی نہیں ۔مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں : تیسری صورت یہ ہے کہ مرد عورت باقاعدہ دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کے ذریعہ نکاح کریں اور نکاح میں اس بات کابھی کوئی ذکر نہیں ہوتاکہ یہ نکاح مخصوص مدت کے لیے کیا  جارہا ہے لیکن فریقین میں سے کسی ایک یا دونوں کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ ایک مخصوص مدت گزرنے کے بعد طلاق کے ذریعہ ہم نکاح ختم کردیں گے فقہاء کرام کی تصریح کے مطابق اس طرح کیا ہوا نکاح درست ہوجاتاہے اور مردو عورت باقاعدہ میاں بیوی بن جاتے ہیں اور ان کے درمیان نکاح کا رشتہ دائمی اور ابدی طورپر قائم ہوجاتاہے او ران پر ضروری نہیں ہوتاکہ وہ اپنے ارادے کے مطابق معین مدت پر طلاق دیں بلکہ ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بغیر کسی عذر کے طلاق کا اقدام نہ کریں او رچوں کہ شریعت میں نکاح کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے اس لیے ان کایہ دلی ارادہ کہ کچھ عرصے بعد طلاق دے دیں گے شرعا ایک مکروہ  ا رادہ ہے لہذا اس ارادے کے ساتھ نکاح کرنا بھی مکروہ ہے۔  (فقہی مقالات 1/258)وبطل نكاح متعة، ومؤقت ، وإن جهلت المدة أو طالت في الأصح وليس منه ما لو نكحها على أن يطلقها بعد شهر أو نوى مكثه معها مدةمعينة(الدر المختار مع رد المحتار،3/51) أما إذا كان في تعيين الزوج أنه لا يقيم معها إلا سنة أو شهرا أو نحو ذلك ولم يشترط ذلك، فإنه نكاح صحيح عند عامة أهل العلم ما عدا الأوزاعي، فإنه قال في هذه الصورة: وهو متعة ولا خير فيه.(البنایۃشرح الہدایۃ5/62)لو تزوجہا مطلقا و فی نیتۃ ان یعقد معہا مدۃ نواہا فالنکاح صحیح ( عالمگیری،1/183)اما لو تزوج و فی نیتہ أن یطلقہا بعد مدۃ نواہا صح( فتح القدیر3/152)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Nov 3, 2022 by Darul Ifta
...