39 views
عصری تعلیم کے لیے عورت کا بغیر محرم کے اسکول وکالج جانا:
(۱۳۷)سوال:کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں:
دور حاضر میں عصری علوم عوام کی ضرورت بن چکی ہے؛ اس لیے اگر کوئی عورت عصری علوم حاصل کرنے کی خاطر بغیر محرم کے اسکول، کالج جائے، تو شرعاً اجازت ہے یا نہیں؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد صادق، گورکھپوری
asked Sep 20, 2023 in متفرقات by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسلام نے مرد و عورت کسی کو بھی تعلیم سے نہیں روکا ہے  بلکہ تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے ہاں یہ ضروری ہے کہ وہ تعلیم انسانیت کے لیے نافع ہو اور شرعی طور پر جائز ہوتو اس کا حاصل کرنا مردوں کے لیے بھی جائز ہے اور عورتوں کے لیے بھی جائز ہے لیکن چوں کہ بالغ لڑکی کا باہر نکلنا عام طور پر فتنہ سے خالی نہیں ہوتا ہے جب کہ موجودہ حالات میں بالغ لڑکیوں کو مختلف فتنوں کا سامنا ہے جن میں بعض فتنے منظم سازش کے تحت سر ابھار رہے ہیں؛ اس لیے اس وقت لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بہت زیادہ حساسیت کی ضرورت ہے۔ اس کی کوشش ہونی چاہیے کہ ادارے مخلوط تعلیم کے نہ ہوں اس لیے کہ مخلوط تعلیمی اداروں میں فتنہ کااندیشہ زیادہ ہے(۱) بہتر یہی ہے کہ کوئی محرم اس کو چھوڑنے اور لانے جائے تاکہ اس کی مکمل نگرانی ہوسکے تاہم اگر گاڑی سے لانے لے جانے کا نظم کیا جائے اور ساتھ میں کوئی نگراں ہو، تو بھی گنجائش ہے۔
’’عن الشِّفَاء بنتِ عبدِ اللّٰہ، قالت: دخلَ عليَّ النبي صلَّی اللّٰہ علیہ وسلم وأنا عندَ حفصۃَ، فقال لی: ’’ألا تُعَلِّمین ہذہ رُقْیَۃَ النملۃ، کما علَّمتنیہا الکتابۃَ‘‘(۲)

(۱) اتفق الفقہاء علی وجوب حجب عورۃ المرأۃ والرجل البالغین بسترہا عن نظر الغیر الذي لا یحل لہ النظر إلیہا، وعورۃ المرأۃ التي یجب علیہا ححبہا من الأجنبي ہي في الجملۃ جمیع جسدہا عد الوجہ والکفین وقول النبي یا أسماء أبي المرأۃ إذا بلغت الحیض لم تصلح أن یری منہا إلا ہذا وہذا وأشار إلی وجہہ وکفیہ۔ (وزارۃ الأوقاف و الشئون، الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: ج ۱۷، ص: ۶)
(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطب: باب ما جاء في الرقي‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۰، رقم: ۳۸۸۷۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص178

answered Sep 20, 2023 by Darul Ifta
...