بالغہ یا نابالغہ کا علم حاصل کرنا:
(۱۳۹)سوال:(۱)کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں:
(۱لف) عورت بالغہ یا نابالغہ مگر مشتہاۃ ہو تو گھر سے باہر ہوکر دارالاقامہ میں رہ کر یا بغیر دارالاقامہ میں رہتے ہوئے کوئی محرم راستہ میں ساتھ لے کر آیا جایاکرے مگر دارالاقامہ میں کوئی محرم ساتھ نہ رہے تو ایسی صورت میں علم حاصل کرنے کے بارے میں حضرات مفتیانِ کرام کی کیا رائے ہے؟ نیز یہ بھی فرمائیں کہ حصول علم میں مرد یا عورت ہونے میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟
(ب) سنا جاتا ہے کہ مدارس البنات کے جو ناظم تعلیمات ہیں یہ حضرات بھی سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے کہتے ہیں کہ ہم بوڑھے ہیں؛ لہٰذا متعلمہ عورتوں کے بالمقابل جاکر ان کی ضروریات کی خبرگیری کرسکتے ہیں اب بتائیں کہ ان کا ایسا کہنا کس حد تک صحیح ہے؟
(ج)
(ج) اگر معلم مرد ہو تو اس سے بالغہ عورت کا پردہ میں رہتے ہوئے تعلیمی سوال و جواب کرنا کیسا ہوگا۔ حالانکہ ’’صوۃ المرأۃ عورۃ‘‘ جو مقولہ ہے کیا وہ لفظاً و معنی حدیث میں سے نہیں؟ اگرچہ لفظاً نہیں تو یقینا معنیً ہوگا، اب اس حدیث کے لحاظ سے عورت کا مرد معلم سے سوال و جواب کرکے علم حاصل کرنا ان کے لئے جائز ہوگا یا نہیں، اگر جائز ہے تو من جانب شرع کسی قسم کی قیودات ہیں یا نہیں؟
(د) مدارس البنات کے محرکین کی طرف سے یہ بھی سنا جاتا ہے کہ عورت علم دین حاصل کرنے کے لئے گھر سے باہر ہونے کے بعد خدانخواستہ اگر راستہ میں زنا و فتنہ کا یقینی اندیشہ ہو تب بھی تحصیل علم کے لیے باہر ہونا ضروری ہے اگر بات من جانب الشرع صحیح ہے تو کس درجہ کے علم کے لئے باہر ہوسکتی ہیں۔ باالتفصیل حوالۂ قلم فرمائیں؟
(ہ) مدارس البنات کے بارے میں ایک اور اشکال کا استفتاء:
مدارس البنات اگر علمائے زمان یعنی دورِ حاضر کے علمائے کرام قائم نہ کریں تو عنداللہ مسئول ہوں گے یا نہیں، اگر حقیقۃً مسئول ہونا ہی ہو، تو اگلے علماء کے زمانے یعنی حضرات علماء دیوبندؒ وغیرہم کیوں مدارس قائم نہیں کئے، اور جب کہ مدارس البنات قائم کئے بغیر وہ دنیا سے رحلت فرماگئے تو کیا وہ ناجی نہ ہوں گے
فقط: والسلام
المستفتی: حضرت العلام
جناب حافظ محبوب الرحمن صاحب چاٹگام